شیخ کی خدمت میں
سمنان سے پنڈوہ دوسال کی طویل مسافت طے کرنے کے بعد حضرت غوث العالم پنڈوہ شریف کے قریب پہونچے تھے کہ حضرت شیخ علاؤالدین گنج نبات رحمتہ الله علیہ نے آپ کو بشارت دی ”کہ آں کسے کہ ازدوسال انتظار او می کشیدہ ایم وطریق مواصلت او می دیدہ ایم امروز فردا می آید“
ترجمہ: میں دوسال کے عرصہ سے جس دوست کے انتظار میں تھا بس آج ہی کل میں آنے والا ہے اور اس طالب صادق کی آنے کی خبر حضرت خضر علیہ السلام نے ستّر بار دی ہے۔
بیعتْ
ایک دن حضرت شیخ علاؤالدین رحمتہ الله علیہ قیلولہ فرمارہے تھے کہ یکبارگی اٹھ بیٹھے اور یہ کہتے ہوئے تشریف لائے کہ ”بوئے یار می آید“ دوست کی خوشبو آتی ہے، اور فوراً حکم دیا کہ میری اپنی پالکی اور وہ پالکی بھی جو میرے پیرومرشد حضرت شیخ اخی سراج رحمتہ الله علیہ نے عنایت فرمایا تھا، دونوں لائی جائیں، اور آپ دونوں پالکی ہمراہ لے کر اس شان سے شہر سے باہر نکلے کہ شہر میں ہر طرف مشہور ہوگیا کہ آج حضرت کسی عزیزخاص کے استقبال کے لیے باہر جارہے ہیں، مریدین ومعتقدین واصحاب واحباب پیادہ وسوار اور لوگوں کا ایک ہجو ساتھ ہوگیا، شیخ شہر سے تقریباً دو کلومیٹر دور ایک سینبھل کے درخت کے نیچے تشریف فرماہوئے، دور سے مسافروں کا ایک ہجوم آتا ہوا دکھائی دیا تو خادم پتا لگانے کے لیے دوڑا، معلوم ہوا کہ اشرف نام کے ایک نورانی جوان سمنان سے آرہے ہیں، وہ قافلے کے ساتھ ہیں، یہ سن کر شیخ بہت خوش ہوئے، اور چند قدم آگے بڑھے، اور حضرت سید اشرف سمنانی دوڑے ہوئے شیخ کی خدمت میں آئے اور قدموں پر گرپڑے، شیخ نے ان کو اٹھا لیا اور اپنے سینے سے لگایا، اس کے بعد سب سے تعارف کرایا، ملاقات کے بعد حضرت شیخ کے حضور باداب دوزانو بیٹھ گئے اور برجستہ یہ شعر پڑھا :
بچہ خوش باشد کہ بعد از انتظارے
بامید رسد اُمّید دارے
ترجمہ: کیاہی خوشی کی بات ہے کہ سخت انتظار کے بعد کوئی امیدوار اپنی امید کو پہونچے۔
حضرت شیخ نے فرمایا کہ جس دن سے تم سمنان سے نکلے ہو میں ہر ہر منزل پر تمہارے ساتھ تھا، اور فرمایا کہ میری پالکی پر سوار ہوجاؤ اور خانقاہ چلو، پاس وادب کی وجہ سے آپ نہیںسوار ہوئے؛لیکن جب حضرت شیخ نے بار بار اصرار کیا تو مجبوراً سوار ہوئے اور حضرت کے ہمراہ چلے، جب خانقاہ دیکھا تو بے اختیار سواری سے اتر پڑے، شیخ نے آپ کو سینہ سے لگایا، اورخانقاہ میں اپنے پہلو میں جگہ دی ، اور عبداللہ خادم کو حکم دیا کہ دسترخوان لگاؤ! خادم نے فوراً دسترخوان لگایا اور ہاتھ دھلایا، شیخ نے فرمایا کہ ”ازمقاصدکونین دست بشوی تا خوان وصل بدست آید“ فرزدن اشرف مقاصد کونین سے ہاتھ دھولو اس کے بعد ہی خوان وصل مل سکتاہے، حضرت غوث العالم نے فرمایا ”حضور میں اپنی جان سے ہاتھ دھوچکا ہوں، پھر بساط وصال پر بیٹھا ہوں“ طرح طرح کے کھانے دسترخوان پر لگائے گئے، شیخ نے چارلقمے اپنے دستِ مبارک سے حضرت سیّد اشرف کے منھ میں ڈالے، لوگ حیران تھے کہ پہلی بار حضرت شیخ نے کسی کی تواضع اس انداز سے فرمایا ہے، آخر میں بھٹّا لایا گیا جو وہاں کے درویشوں کاپسندیدہ کھانا ہے، پکے ہوئے چاول میں ٹھنڈاپانی ڈال کر بنایا جاتا تھا، شیخ نے فرمایا کہ پن بھتا کھاؤ، تشنگانِ معرفت کو اس غذا سے سیرابی حاصل ہوتی ہے، کھانے کے بعد پان کے بیڑے آئے، ایک ایک حاضرین کودیا اور اپنے دستِ مبارک سے حضرت اشرف کو کھلایا، اس کے بعد یکے بادیگرے تین بیڑے اور کھلائے اور حسبِ معمول بزرگانِ چشتیہ نظامیہ سراجیہ میں داخل فرمایا، اور اسرارِ وحدت سے آگاہ فرمایا اور اپنی کلاہِ مبارک سر سے اتار کر سیّد اشرف کے سر پر رکھ دی، اس وقت حضرت سید اشرف نے بے ساختہ یہ اشعار پڑھے :
نہادہ تاج دولتِ برسر من
علاؤالدین والحق گنج نبات
زہے پیرے کہ ترک از سلطنت داد
برآوردہ مرا از چاہ آفات
ترجمہ: حضرت شیخ علاء الحق والدین نے میرے سر پر دولت کا تاج رکھ دیا ، اس پیر کا کیا کہنا جس سے ملنے کی تمنّا نے مجھے سلطنت سے بے نیاز کردیا اور آفات سے نکال کر شاہراہ روحانیت پر ڈال دیا۔
اس کے بعد اپنے حجرے میں لے گئے اور کچھ دیر خلوت میں رہے، ایک گھنٹہ کے بعد حجرے سے باہر نکلے اور اپنے پہلو میں بٹھایااور وہ تبرکات اور خرقہ جو آپ کو مشائخ سے ملے تھے لائےاور تمام اصحاب کو جمع کیا اور فرمایا کہ یہ امانت برسوں سے میرے پاس تھی اب اس کے مستحق کے سپرد کرتا ہوں۔
سید اشرف نے وہ سارے تبرکات اسی دن ایک فقیر کو دیدیا، شیخ نے جو آپ کو شرف وعزت بخشی اس سے کچھ لوگ ناخوش تھے، اب انھیں اچھا موقع مل گیا، اعتراضات کی بوچھار شروع ہوگئی کہ شیخ کا عطا کیا ہوا خرقہ وتبرکات دوسروں کو دیناناقدری ہے، اور یہ جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ یہ بات حضرت شیخ علاء الحق والدین رحمتہ الله علیہ تک پہونچائی گئی، شیخ نے فرمایا کہ اشرف کا کوئی فعل بے معنیٰ نہیں ہوسکتا، یہ سوال خود انھیں سے کرو تو تمہاری تسلّی ہوجائے گی، لوگوں نے آپ سے دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا کہ لباس عین پیر ہے یا غیر؟ ظاہر ہے کہ لباس عین پیر نہیں ہے؛ بلکہ غیر پیر ہے، اور پیر کے ہوتے ہوئے غیر پیر کی کوئی ضرورت نہیں؛ اس لیے کہ مرید کی نظر غیر پر نہیں ہوتی، مرید کو پیر کے صفات کے تابع ہونا ضروری ہے، اگر میں غیر پر نگاہ رکھوں تو پیر سے فیض حاصل نہیں کرسکتا، اور پیر کے صفات اپنےاندر پیدا نہیں کرسکتا، اور مرید کے اندر پیر کے صفات پیدا نہ ہوں تو اس کو پیر کی کیا ضرورت ہے؟جب حضرت سید اشرف کے جواب کو شیخ نے سُنا تو سید اشرف کی بڑی تعریف وتوصیف فرمائی اور بارگاہِ الٰہی میں آپ کے لیے دعا فرمائی کہ مولائے کریم اس کی شہرت مشرق سے مغرب تک پہونچے، غرض تبرکات وعنایات سے بہرہ مند ہو کر حضرت اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئےتھے، شیخ نے اپنی خلوت گاہ کے قریب ایک حجرہ آپ کو عنایت فرمایا، آپ اسی میں عبادت کیا کرتے تھے۔
یہ حضرت غوث العالم کا ابتدائی دور تھا، اس وقت آپ کی نگاہ پیر پر تھی، اور آپ کا سارا زور اپنے اندر پی ر کے صفات پیداکرنے پر تھا، اس لئے آپ کا کمالِ احتیاط تھا کہ ان علامات کو اپنے اندر سے جُدا کردیا، تاکہ عوارضات کی طرف متوجہ ہونے کا شائبہ بھی نہ رہ جائے، لیکن بعد میں آپ کے شیخ سے اور دوسرے بزرگوں اور صوفیاء اور مشائخ سے جو خرقے اورتبرکات حاصل ہوئے ان بیش قیمت تبرکات کو قدرواحترام کے ساتھ محفوظ رکھا، اور آخر وقت میں اپنے جانشین حضرت نورالعین کو سپرد فرمادیا، شیخ علاء الدین کا دستور تھا کہ اپنے مریدوں سے سخت ریاضت اور محنت لیا کرتے تھے، اور دس بارہ سال تک مشقت کراتے تھے، خود آپ کے بیٹے نور چونکہ وزیر کے بھائی تھے اور صاحب ثروت باپ کے بیٹے تھے، اس لیے ان کے دل سے بڑائی کا احساس دور کرنے کے لئے ان کے ذمہ جو خدمات سپرد کی تھیں وہ سب سے زیادہ سخت تھیں، جیسے جنگل سے لکڑیا کاٹ کر لانا، کنویںسے پانی نکال کر دوسروں کے گھروں تک پہونچانا، مہتروں کاکام جیساکہ آپ پڑھ چکے ہیں، لیکن شیخ بڑے مزاج شناس تھے، اس لیے انھوں نے سید اشرف کو کسی خدمت پر معمور نہیں فرمایا، حضرت غوث العالم نے بارہا خواہش ظاہر کی کہ کوئی خدمت ان کے لیے بھی مقرر کی جائے، مگر شیخ نے فرمایا کہ فرزند اشرف! حضرت خضر علیہ السلام نے تمہاری اس قدر تعریف وتوصیف کی ہے کہ مجھ کو تم سے کوئی خدمت لیتے ہوئے شرم آتی ہے، چار سال تک حضرت غوث العالم مرشد کی بارگاہ میں رہے، کبھی کبھی پوشیدہ طور پر جاروب کشی کرتے تھے، یا شیخ کا پیشاب پھینک دیتے تھے، مگر مرشد نے کسی خاص خدمت کا حکم نہیں دیا، صرف ذکروفکرکی تاکید فرمائی۔
For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972